اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں شمالی وزیرستان میں متعین پاکستان کے حمایت یافتہ "دین اور ملک کی خدمت کرنے والے <اچھے طالبان>" کی بڑی تعداد، امریکی دباؤ کے تحت فوجی کاروائی کے پیش نظر، حکومت پاکستان کے کہنے پر کرم ایجنسی میں منتقل ہوگئی ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ کرنل امام خالد خواجہ کی ہلاکت کے بعد <اچھے طالبان> کے کمانڈر جلال الدین حقانی کے حوالے کردیا گیا تھا اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ طالبان کے اس سابق کمانڈر کی اپنے پرانے ساتھیوں کے ہاتھوں کی ہلاکت کی خبر بھی پاراچنار سے آئی ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کرنل صاحب کو اپنی آستین کے سانپوں نے کرم ایجنسی میں ہی قتل کردیا ہے۔ واللہ العالم
جدیدترین اطلاعات کے مطابق سرکاری ذرائع نے کرنل امام کے قتل کی تصدیق کردی ہے جبکہ شدت پسندوں نے لاش کی حوالگی کیلئے دو کروڑ روپے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ کرنل امام کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے؟۔ کرنل ریٹائرڈ امام نے افغان جہاد میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کی رہائی کے بدلے شدت پسندوں نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ اور مطالبات پورے نہ ہونے پرانہیں قتل کردیا گیا۔ کرنل ریٹائرڈ امام کی لاش اب تک ورثا کے حوالے نہیں کی گئی۔کرنل امام کانام سلطان امیر اور ان کا تعلق چکوال کے نواحی قصبہ چتال سے ہے۔ انہوں نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں سوگوار چھوڑی ہیں۔ اہلخانہ کا کہنا ہے کہ انہیں موت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
۔۔۔۔۔واضح رہے کہ پاکستان کے حمایت یافتہ <اچھے طالبان> کے ہاتھوں پاراچنار کے مظلوم علاقے کی ناکہ بندی گذشتہ چار سال سے جاری ہے۔ یعنی یہ کہ جن طالبان نے پاراچنار کا محاصرہ کرلیا ہے اور جن طالبان نے سینکڑوں نہتے افراد کو قتل کیا ہے اور راستوں سے لاتعداد مسافرین کو پکڑ کر اذیتیں دے کر قتل کیا ہے اور ان کے جسموں کے ٹکڑے کردیئے ہیں اور کئی بار ادویات اور اشیائے خورد و نوش لے جانے والے ٹرکوں کو لوٹ کر ٹرکوں کو آگ لگائی ہے اور ڈرائیوروں کو بے دردی سے قتل کیا ہے اور حال ہی میں شلوزان کی پہاڑیوں میں ادا بنانے کی نیت سے شلوزان پر حملہ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت اسی کے قریب افراد کو شہید کردیا ہے اور ان کی شکست کے بعد آرمی ہیلی کاپٹروں نے ان کے نامکمل انسانیت سوز کام کو مکمل کرنے کی کوشش کی ہے ان کا تعلق ان ہی <اچھے طالبان> سے ہے جن کو پاراچنار سے گذار کر افغانستان میں پہنچانے پر حکومت اور فوج بضد ہیں اور پاراچنار کے عوام ان کو راستہ دینے کی صورت میں ان کے جارحانہ اقدامات سے پریشان۔ <اچھے طالبان> کے کرم ایجنسی میں آنے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ حب الوطنی کی پاداش مین طویل سزا پانے والے کرم ایجنسی کے عوام کو اب ایک بار پھر طالبان اور القاعدہ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا سامنا ہے۔ اور طالبان اور القاعدہ کے دہشت گردوں نے اس علاقے میں اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ پاراچنار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں گرام کے علاقے کے تین شیعہ افراد شہید ہوگئے۔یہ افراد ٹریکٹر پر اپنے کام سے جارہے تھے کہ ان کا ٹریکٹر طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں بچھائي گئی بارودی سرنگ سے ٹکرایا۔دریں اثناء طالبان نے کسی بھی اسلامی مکتب سے اپنے عدم تعلق کا ثبوت دیتے ہوئے اہل سنت سے تعلق رکھنے والے دو افراد کو بھی اغوا کرلیا ہے جب کہ حال ہی میں وسطی کرم ایجنسی کے علاقے زنگی سے شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے چار سنی افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔ البتہ یہ ان واقعات میں سے ہیں جن کی خبریں طالبان کی اپنی مرضی سے میڈیا تک پہنچتی ہیں ورنہ سنی علاقوں میں ان کے بے پناہ جرائم اتنے ہولناک ہیں کہ سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں تا ہم ان واقعات کی خبریں طالبان فورس کے ذریعے دبا دی جاتی ہیں اور صرف ان واقعات کی خبریں باہر آتی ہیں جن کو آشکار کرنے طالبان کے اپنے ایجنڈے کے تحت ضروری ہوتا ہے۔ قابل ذکرہے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان پر امریکہ کے ڈرون حملوں میں تیزی آنے اور امریکی دباؤ پر شمالی وزیرستان مین پاکستانی فوج کی ممکنہ کاروائی کی بنا پر طالبان اور القاعدہ کے دہشت گرد عناصر نے ـ پاکستانی خفیہ ایجنسیون کے کہنے پر ـ کرم ایجنسی میں پناہ لے رکھی ہے۔ طالبان اور القاعدہ کےانتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ اقدامات کی بناپر نہ صرف کرم ایجنسی کے اہل تشیع بلکہ اہلسنت برادری بهی پریشان ہے اور علاقے کے عوام دہشت گردوں کی ریشہ دوانیوں سے عاجز آچکے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
/110
ہنگو سے ڈکیت گروہ کے 4 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں قتل کرنے کیذمہ داری قبول کرتے ہوئے تحریک طالبان پاکستان نے خبردار کیا ہے مقتولین کی نماز جنازہ میں کوئی شرکت نہ کرے / طالبان کا یہ اقدام ایک دینی یا سماجی اقدام نہیں ہے بلکہ انھوں نے اپنے حریف گروہ کا صفایا کردیا ہے۔
- ہنگو کے علاقے سرکدانہ سے4لاشیں برآمد
چاروں افراد سنی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وسطی کرم ایجنسی کے علاقے زنگی سے شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے چار افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں جنہیں گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔ ان افراد کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ تقصیل دیکهئی:پاراچنار:شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونیوالوں کی لاشیں برآمدکوہاٹ - ہنگو روڈ پر ایک منی بس میں بم دھماکے سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد اٹھارہ ہوگئی ہے؛ تفصیل:کوہاٹ میں بم دھماکہ اٹھارہ جاں بحقیاد رہے کا گاڑی میں بیٹھے تمام افراد کا تعلق اہل سنت سے تھا لیکن ان کے اس اجتماعی قتل کو بھی بظاہر دبایا گیا ہے۔